سلسلہ مجددیہ کا ایک تُرک مصنف

  • Admin
  • Jan 08, 2022

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ النبی الکریم

سلسلہ مجددیہ کا ایک تُرک مصنف

(ڈاکٹر امین اللہ وثیر،سابق پروفیسرشعبہ عربی  اورینٹیل کالج لاہور)

بال جبریل میں حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے پنجاب کے پیر زادوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر اس طرح کیا ہے۔

 گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے

جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان

اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

آج ہم یہاں جمع ہو کر سرمایہ ملت کے اسی نگہبان کی یاد منا رہے ہیں جس نے الحاد و زندقہ کے تاریک دور میں  ایمان و ایقان کی بنیادوں کو استوار کیا۔  میرے اس مختصر سے مقالے کا موضوع حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے سلسلہ عالیہ کے بعض متوسلین کی چند  تصانیف کا اجمالی خاکہ پیش کرنا ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تصانیف کا ذکر کرنے سے پہلے خود سلسلہ عالیہ کے ذکر سے روح کو سرشار کر لیا جائے۔  حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  14 شوال 971ھ مطابق جولائی 1946ء میں پیدا ہوئے۔سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت شیخ عبدالاحد رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔حدیث کی سند مولانا یعقوب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور معقولات کی تحصیل کے لیے سیالکوٹ تشریف لے گئے۔  یہاں وقت کے باکمال عالم القاضی الشیخ حضرت  کمال الدین بن موسی رحمتہ اللہ علیہ جو جامع علم و عمل اور پیکر زہدوتقوی تھے کہ سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ زبدۃ المقامات میں ہے:  ''     بیشتر علوم رانزہ پدر بزرگوار خودواند کے را پیش بعضے علماء کبار آں روزگار گزرانیدہ اند و بسیالکوٹ نیز رفتہ نزد مولانائے محقق کمال کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کہ از فحول دانشوران متور بود بعضے کتب مشکلہ را چوں عضدی وامثالہ خواندہ بود، وبعض کتب احادیث رانزد شیخ یعقوب کشمیری رحمتہ اللہ علیہ گزرانیدہ بود اند، وایں شیخ یعقوب از خلفائے بزرگ شیخ معظم و قطب مکرم شیخ حسین خوارزمی کبروی قدس سرہما         ''۔ زبدۃ المقامات ،صفحہ نمبر 128  ملا کمال 971ھ میں گورنر کشمیر حسین سے ناراض ہوکر سیالکوٹ چلے آئے تھے اور پھر وہاں ایک لمبے عرصے تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔سیالکوٹ کے علاوہ لاہور میں بھی مسند درس کو زینت بخشی اور اسی شہر میں 1017ھ  میں راہی ملک بقا ہوئے، ملا کمال کے بارے میں تاریخ کشمیر اعظمی میں حسب ذیل مصرع تاریخ وفات ملتا ہے۔

ملحق حق، قطب و تاج اولیاء، ملا کمال 

حدائق الحنفیہ میں آپؒ کی تاریخ وفات '' حدیقہ فیض '' سے نکالی گئی ہے  اور صاحب خزینۃالاصفیاء نے تاریخ وفات کے دو مصرعے کہے ہیں۔

شمع نور، عارف بگو تاریخ او نیز سالک، تاج عرفانی کمال 

اتنے بلند پایا استاد کی صحبت سے جنہوں نے کسب  ِفیض کیا ہو وہ بھی صاحبِ کمال ہونے چاہئیں۔ چنانچہ ملا کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ کی فہرست میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو ہند کے عظیم فلسفی ملا عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہجہان کے وزیر  باتدبیر ملا سعد اللہ کے نام شامل ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ کی مختلف مقامات پر ملاقاتوں کا پتا چلتا ہے۔  مختلف ماخذ کے مطالعہ سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ ہی تھے جنہوں نے حضرت شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو '' مجدد الف ثانی '' کے خطاب سے یاد کیا۔  ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے اپنی کتاب مجدد کا نظریہ توحید میں یہی لکھا ہے اور اس کی تائید خواجہ محمد ہاشم کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور ان کے الفاظ یہ ہیں: راقم حروف گوید مرا بردل خطور میکرد کہ اگر یکے از اعاظم علماء وقت ایں معنی را کہ حق سبحانہ حضرت ایشاں را مجدد الف ساختہ مسلم مے داشت تائید عام بود، تا روزے بایں خطرہ بخدمت حضرت ایشاں رسید، بایں حقیر خطاب نمودہ فرموند کہ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کہ در علوم عقلیہ و نقلیہ و تصانیف علیہ چوں او، الحال درد یار ہند نمی نماید کتابے بما نوشتہ بودو تبسم نمودہ فرموند یکے ازاں فقرات مدحیہ ایں بود کہ '' مجدد الف ثانی''  زبدۃ المقامات،صفحہ نمبر 176  بعض تذکروں سے یہ بھی معلوم ہوتا  ہیں کہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے لیے سرہند بھی تشریف لے گئے اور بہت دنوں تک وہاں قیام کیا بلکہ اس موقع پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  سے بیعت بھی کی ان کے مرید بننے اور حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں'' آفتاب '' کے لقب سے نوازا۔ تذکرہ علماء ہند، صفحہ نمبر 110  معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے بے پناہ عقیدت تھی اور وہ اپنے زور قلم سے حضرت کی تائید و اعانت اور ان کے مخالفین  کی تردید کا فریضہ سر انجام دیا کرتے تھے۔  مولانا عبدالحیئ لکھنوی نے نزہۃالخواطر میں کشف الغطاءکے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہوں نے  سند العلماء افضل الفضلاء مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کے اپنے قلم  درج ذیل عبارت لکھی ہوئی دیکھی تھی جس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مخالفین کے بعض شکوک و شبہات کا پرزور طریقے سے رد کیا گیا تھا۔  ''قدح کردن در سخن بزرگان بے مراد ایشاں جہل است و نتیجہ نیک نہ دارد، پس رد کلام مشیخیت پناہ عرفان دستگاہ شیخ احمد از جہل و نا فہمیدگی است'' کتبہ الفقیر عبدالحکیم (نزہۃالخواطر، جزء خامس، صفحہ 48)  یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولانا نے اپنے بزرگ دوست اور پیر کی تائید اور تجدید الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے اثبات میں رسالہ بھی تحریر کیا تھا جس کا نام '' دلائل التجدید'' رکھا۔  روضہ قیومیہ میں اس رسالہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی  نے نہایت قوی دلائل اور براہین سے کام لیا ہے۔ (روضہ قیومیہ، جلد اول، صفحہ 149) : مولانا محمد میاں لکھتے ہیں  مولانا عبدالحکیم صاحب سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ جو مشہور جلیل القدر عالم ہیں ابتدا میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے خلاف تھے۔ ایک روز حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا کہ آپ نے مولانا عبد الحکیم صاحب کو مخاطب فرما کر یہ آیت پڑھی. (قل اللہ ثم ذرھم) کہو اللہ، پھر ان کو چھوڑ دو۔  اس آیت کے سنتے ہی حضرت شیخ عبدالحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ کا جذب و شوق الہی دل میں جگہ کر گیا اور فوراً قلب سے ذکر جاری ہوگیا۔جب خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ قلب سے ذکر جاری ہے۔  اس کمال وتصرف کو دیکھ کر ساری مخالفت ختم ہوگی۔حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باقاعدہ سلسلہ میں داخل ہوئے اور روحانی کمالات حاصل کئے۔  اس سلسلہ میں خواجہ محمد ہاشم کا بیان حسب ذیل ہے۔ مخفی نماند کہ ایں مولانائے مذکور شبے در واقعہ حضرت ایشاں را دیدہ بود کہ ایں آیت برد خواندہ اند (قل اللہ ثم ذرھم) بعد از دید ایں واقعہ بخدمت ایشاں آمدہ تعلیم گرفت واز مخلصان حقیقی گشت، پس پیش از ملازمت صوریہ می گفت کہ اویسی حضرت ایشانم'' (زبدۃ المقامات،صفحہ 186)  بعض تذکروں میں ایک اور واقعہ بھی درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا عبد الحکیم سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی دوستی کی بنیاد بہت گہری تھی اور مولانا اکثروبیشتر  حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں آیا  جایاکرتے تھے۔خواجہ محمد عبیداللہ مروج الشریعۃ،  فرزند خواجہ محمد معصوم بن مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔  سات سال کا سن تھا کہ مولانا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹ رحمتہ اللہ علیہ کی تشریف لائے اپنے امتحاناً فرمایا،  گویائی زبان کی صفت ہے دل ایک پارچہ گوشت ہے  جس قادر مطلق نے زبان کو گویائی عطا کی ہے وہی قلب کو قوت ذکر عطا فرماتا ہے۔ ۔ مولانا نے فرمایا، نبیرہ مجدد کو ایسا ہی ہونا چاہیے. (علماء ہند کا شاندار ماضی، جلد اول، صفحہ 480)  حضرت امام ربانی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت ان عظیم المرتبت شخصیات میں سے ہے  جنہوں نے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی زندگیاں وقف  کر دی تھی اور جن کی حیات دنیاوی کا مقصد ہی صرف یہ تھا کہ کفر و شرک اور الحاد و ضلالت کی آندھیوں  کا مقابلہ کرکے اللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم '' اسلام'' پر گامزن ہوا جائے اور دوسروں کو بھی اسی کی طرف بلایا جائے۔  حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مغل بادشاہ اکبر کی ایجاد کردہ گمراہی کا  ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جہانگیر کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیا۔  یہ انہیں کی عظیم شخصیت  تھی جس نے اکبری الحاد و بدعات کا قلع قمع کیا۔تصوف کو حقیقتاً تزکیہ قلب کا ذریعہ  ثابت کیا اور شریعت و طریقت کی دوئی کے غلط تصور کو ملیامیٹ کرکے یک جان و یک قالب کی حقیقت کو آشکارا کیا۔  تجدید و احیائے دین کی تاریخ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا نام سدا جگمگاتا رہے گا اور ان کی مخلصانہ کوششیں ہر دور میں فرزندان اسلام کے لیے مشعل راہ کا کام دیتی رہیں گی۔  حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ بلاشبہ چشمہ ہدایت ہیں اور احیائے شریعت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام  کی ایک عظیم  کامیاب و کامران کوشش۔  ان کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔عربی ترجمہ مصر سے چھپا تھا۔  جدید ترکی زبان (بحروف رومن) میں مکتوبات امام ربانی کا ترجمہ راقم الحروف نے ترکی میں دیکھا۔  آپ رحمتہ اللہ علیہ کے رسالہ مبداومعاد بھی آپؒ کی تعلیمات  عالیہ کا آئینہ دار ہے اور اسی طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے عظیم المرتبت فرزند حضرت خواجہ محمد معصوم رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات بھی جو تین جلدوں پر محیط ہیں خالص اسلامی تصوف اور شریعت کی بےداغ تعلیمات کا خزینہ بیش بہا ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی اولاد و احفا اور خلفائے عظام کی مساعی جمیلہ کی بدولت اور اس بناء پر بھی خود کو سلسلہ عالیہ کی تعلیمات، احکام شریعت کے مطابق اور انہیں  کے نور سے مقتبس تھیں۔  سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ بسرعت تمام برصغیر پاک و ہند سے نکل کر دور دراز کے اسلامی ممالک تک پھیل گیا۔سلطنت عثمانیہ کے عہدمیں ترکی کے مختلف علاقوں میں اس سلسلے کے کی تکیے رشد و ہدایت کی روشنی پھیلانے میں مصروف تھے۔  افسوس کہ اس صدی کے تیسرے عشرے میں جب ہم غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی '' مہربانیوں'' کے طفیل بساط خلافت لپیٹ دی گئی تو نئی حکومت نے تصوف کے تمام سلسلے جبراً ممنوع قرار دیئے اور اس طرح سلسلہ مجددیہ کو بھی ظاہر طور پر کام کرنے سے رک جانا پڑا۔لیکن راقم کا یہ ذاتی مشاہدہ  ہے کہ سالہا سال کی جبری بندش بھی ترک قوم کے مزاج دینی اور ذوق متصوفانہ کا خاتمہ نہیں کر سکی اور اب تو الحمدللہ ترکی میں رجوع الی الاسلام کی تحریک کھل کر سامنے آچکی ہے اور حکومت و سیاست میں بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔  سلطنت عثمانیہ میں سلسلہ مجددیہ کی ترویج و اشاعت کا سہرا شیخ خالد کردی رحمتہ اللہ علیہ کے سَر ہے وہ مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے،  انہوں نے دہلی میں حاضر ہوکر حضرت شاہ غلام علی رحمۃ اللہ علیہ سے تکمیل رشد و ہدایت کی آپ ؒکے ہاتھ پر بیعت کی اور واپس جاکر روم، شام عراق، عرب اور کردستان وغیرہ  میں حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کو فروغ دیا۔

سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ کے ایک اہم رکن خواجہ محمد باقر بن شرف الدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت خواجہ محمد معصوم رحمتہ اللہ علیہ کے خلفاء  میں سے بتایا جاتا ہے۔خواجہ محمد باقر رحمہ اللہ علیہ کے حالات زندگی تذکروں میں بہت کم ملتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ خود اس سلسلے کے تذکرہ نگاروں نے بھی اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں دی حالانکہ ان کی کتاب کنزالہدایات، مکشف البدایات والنھایات  ایک اہم تصنیف ہے جس سے متعلقین سلسلہ میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،  ان کی دیگر تصانیف قرآن حکیم کی ایک  تفسیر موسومہ '' منتھی الایجاز لکشف الاعجاز) بزبان عربی اور '' دام حق'' (فارسی منظوم بجواب نام حق) غیر مطبوعہ ہیں۔ کنھیا لال  نے ایک بزرگ مفتی محمد بخش رحمۃاللہ علیہ کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔

  شاہ جہانی عہد میں ایک نامی مفتی محمد باقر رحمہ اللہ جس کی اولاد کا اب نام و نشان نہیں صرف ایک محلہ '' چوہنہ'' مفتی محمد باقر اس کے نام سے مشہور ہے۔ (تاریخ لاہور، صفحہ، 54) نقوش '' لاہور نمبر '' میں  پروفیسر علم الدین سالک مرحوم نے بھی مختصر الفاظ میں ان بزرگ کا ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں:  یہ بھی لاہور کے ممتاز اور معزز علماء میں شمار ہوتے تھے۔  آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نام پر چوہنہ مفتی باقر اب تک موجود ہے اور وہیں آپؒ کا مزار بھی ہے۔

''بزم تیموریہ'' میں لکھا ہے مولانا شرف الدین لاہوری، لاہور کے مفتی کے عہدے پر مامور تھے ان کے صاحبزادے ملا محمد باقر بھی صوری و معنوی خوبیوں سے آراستہ تھے۔  عالمگیر خان سے بھی خسروانہ نوازشوں سے پیش آتا تھا۔ (بزم تیموریہ، صفحہ 251)  برصغیر کے علماء و فضلاء کے مشہور و معروف تذکرہ نزہۃ الخواطر میں راقم کو محمد باقر لاہوری کا نام نہیں مل سکا لیکن شرف الدین لاہوری کا ذکر علماء  قرن حادی عشر  کے تحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا گیا ہے۔ السبح العالم الفقیہ المفتی شرف الدین اللاھوری کان من الفقھاء الحنفیۃ وکان خلو المنطق، فصیح الکلام حسن خلاق، ولی الافتاء بمدینۃ لاھور فی ایام عالمگیر فاسقل مدۃ حیاتہ،مات سنۃ سبع و ثمانین والف (نزہۃالخواطر ،الجزء الخامس، صفحہ 165) اسماعیل پاشا البغدادی نے صرف دو سطروں میں ملا محمد باقر کا ذکر کیا ہے: الشیخ محمد باقر بن شرف الدین اللاھوری النقشبندی صوفی (ہدیۃ العارفین، جلد دوم، صفحہ 293) وہ خود '' کنز الہدایات'' اور اپنی تفسیر قرآن '' منتھی الایجاز '' میں اپنے آپ کو العباسی الحسینی اللاھوری لکھتے ہیں: معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ  مجددیہ کے بہت سے بزرگوں کے ساتھ ان کے تعلقات بڑے گہرے تھے، اس کی شہادت اس بات سے ملتی ہے کہ'' مکتوبات خواجہ معصوم'' اور ''مکتوبات خواجہ سیف الدین'' میں ان کے نام لکھے گئے بہت سے مکاتیب بھی موجود ہیں۔ '' کنز الہدایات'' خواجہ محمد باقر رحمہ اللہ علیہ کی اہم ترین تصنیف ہے۔یہ کتاب جس سے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مکتوبات گرامی اور رسالہ '' مبدا و معاد '' اور''مکتوبات خواجہ محمد معصوم '' کا لب لباب  کہنا چاہیے پہلی مرتبہ امرتسر سے اور پھر قیام پاکستان کے بعد لاہور سے شائع ہوچکی ہے اور سالکان و طالبان سلسلہ انیقہ نقشبندیہ مجددیہ کےلیے لازمی سمجھی جاتی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے میرا مقالہ، '' ملا محمد باقر لاہوری '' دی اورینٹل کالج میگزین لاہور، شمارہ مارچ، جون 1972)  اس اہم تصنیف کا ایک عربی ترجمہ راقم الحروف کو قیام استنبول کے دوران مشہور عالم کتب خانہ '' سلیمانیہ'' میں دستیاب ہوا تھا۔  مترجم ایک ترک عالم الشیخ محمد الحفظی بن الشیخ ولی الدین ہیں خود بھی '' طریقہ علیہ نقشبندیہ '' کے خلفاء میں سے تھے۔ (ترجمہ موسومہ حرز العنایات ترجمہ کنزالہدایات (مخطوطہ) ورق75ب)